اسلام کے خلاف صلیب کی اس(افغان) جنگ کہ جس میں پاکستان بظاہرامریکہ کااتحا دی ہے اور طالبان ِ
افغانستان کےخلاف اس کی سر زمین استعمال ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان شدید مشکلا ت اور خطرات کاشکار ہے، آج دس سال ہو چکے ہیں ۔کوئی بھی منصف مزاج آدمی ، اور حالات سے مکمل آگاہی رکھنے والا اگرغیر جا نبدارانہ تجزیہ کرے تو اس کے سامنے منظر ،کچھ یوں بنتا ہے۔
۱۱/۹ کے وا قعے کے بعد امریکہ نے مسلمانوں کی واحد سپر پاور اور ایٹمی قوت ،پاکستا ن پر شدید دبا ؤ ڈالا ، تباہ و بربا د کر دینے اور پتھر کے تاریک دور میں پہنچا دینے کی دھمکیا ں دیں ۔سارا عالم کفر اس (امریکہ)کے ساتھ کھڑا تھا ۔
پاکستا ن کا ازلی بد ترین دشمن بھارت اس صورت حال سے نہایت خوش اور پاکستان پر کاری ضرب لگانے کے لئے تیار کھڑا نظر آتاتھا ۔
امریکہ، دنیا کے سب سے بڑا عسکری اتحاد ’’ ناٹو ‘‘، جدید ترین ٹیکنالو جی اور وسا ئل کے ساتھ حملہ آورہونے کو تھا ۔ان حالات میں جوش سے زیادہ ہو ش کی ضرورت تھی اور اسلامی حمیت و غیرت کا سہارا لینے کی ضرورت تھی ۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پورا عالم اسلام اپنے مفادات کے لئےیاتو امریکہ کے ساتھ کھٹرانظر آتاتھا یا قلیل تعداد اس جنگ میں خاموش تماشائی تھی۔ ان مشکل حالات میں اکیلے پاکستا ن کو یہ جنگ لڑنی تھی۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایمانی غیرت کا تقاضایہ تھا کہ پاکستان ان صلیبی لشکروں کےسامنے ڈٹ جاتا ،ان کو للکارتااور ان سے بھڑ جاتا ۔لیکن ، یہ سب ایمانی قوت اور مظبوط ترین اعصاب کا متقاضی تھا جس سےبدقسمتی سے ہماراحکمران طبقہ ناواقف و خالی نظر آتاتھا۔
ان حالات میں پاکستان نے مجبور ہو کر اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور اپنے مظبوط ترین دوست یعنی افغان طالبان کے خلاف تعاون پر مجبور ہوگیا۔لیکن آج جب حالات نے پلٹہ کھایا اور کمزور نظر آنے والے افغان مجاہدین نے امریکہ کو روس سے زیادہ بری حالت سے دوچار کیا تو سب حیران تھے۔لیکن جب درپردہ کہانیاں سامنے آنے لگی تو دنیاششدرتھی، بظاہر امریکی اتحادی(پاکستان) اسے افغان جنگ میں عزیمت سے دوچار کر چکا تھا۔ پاکستان نے افغان مجاہدین کی خفیہ مدد و نصرت جاری رکھی جو بلا آخر امریکی اور ’’ناٹو‘‘ اتحاد کی ناکامی کی صورت میں سامنےہے۔ آج امریکی حکمران اور انکے یورپی حواری کھلم کھلّا پاکستان کے گلے میں اپنی شکست کا ’’ تمغہ‘‘ ڈالتے نظر آتےہیں۔اور اس وقت تما م کفار کا میڈیا اس کا شور مچاتا اور چیختا نظر آتا ہے اور پاکستان کے خلاف ’’چارج شیٹ ‘‘ پیش کرنے کے لئے مسابقے کی حالت میں ہے،جس کی مثال حال میں پاکستان کےافغان جنگ میں کردار پر مبنی ایک ڈاکومنٹری ہے جسے ’’بی بی سی ‘‘نے ’’سیکرٹ پاکستان ‘‘ کے نام سے نشر کیا ہے.
اور تو اور مہمند ایجنسی کی سلاسلہ آرمی چیک پوسٹ پر حملہ، اور بڑی تعداد میں فوجیوں کا جاں بحق ہونا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکا و اتحادی اپنے آستین کے سانپ سے اب تنگ آگئے ہیں ، جس نے مسلسل ۱۰ سال تک امریکیوں کو افغانستان میں تگنی کا ناچ نچائے رکھا ہے!
اور آپ اگر افغان جنگ پر نظر رکھنے والے ہیں تو آپ کو خوب علم ہوگا کہ کن ‘‘اتحادیوں‘‘ کو پاک آرمی سے بچانے کے لئے یہ غیر ارادی فضائی حملہ کیا گیا، کس نے یہ فضائی مدد طلب کی اور وہ “پچاس” کے قریب امریکی اور ناٹو اسلحہ و تربیت سے لیس لوگ کون تھے کہ جنکو پاکستان میں واپس داخل نہ ہونے دینے پر امریکہ نے یہ بزدلانہ اقدام کیا۔ ہاں جب حالات کھل ہی رہے ہیں تو کیوں نہ ہم کچھ حقائق سے پردہ اٹھاتے چلیں۔
وہ “پچاس” افراد ٹی ٹی پی کی ہائی کمان اور انکے محافظ تھے۔ جن کو ہدایات اور اہداف دینے کے بعد واپس پاکستان آنا تھا، کہ جنکو بچانے کے امریکہ و ناٹو کو اپنے نام نہاد اتحادی پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وقت دور نہیں جب لوگ ٹی ٹی پی (تحریک ٹیرزم پاکستان) کے مکروہ چہرے کو ننگا ہوتے دیکھیں گے انشآاللہ۔ اور اب جو نئی صف بندیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں اس میں:
پاکستان کے مقابل صف میں ٹی ٹی پی(صرف محسود اور سواتی طالبان ! کیونکہ یاد رہے ملا نزیر اور حافظ گل بہادر باوجود ٹی ٹی پی کہلانے کے پاکستان سے معاہدہ کئے ہوئے ہیں، نہ صرف معاہدے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر ازبک جنگجوؤں کو اپنے اپنے علاقوں سے مار بھگا چکے ہیں۔ اور پاکستان کی بجائے ، افغانستان میں کاروائیاں کرتے ہیں اور حقانی نیٹ ورکس کا پاکستان سےاتحاد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں!) ، امریکہ، ناٹو، انڈیا ، روس ، اور اسرائیل کھڑے نظر آتے ہیں! اسی لئے اس تجزیے کا عنوان رکھا:
“بات ہے سچ مگر بات ہے رسوائی کی” .
کفر سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں تعاون یقینا ًایک سنگین جرم ہے اور یہ کام انسان کو کبیرہ گناہ سے کفرو ارتدادتک لے جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تب (۲۰۰۱)تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر حکومت کو تنبیہ کی اور اس مسئلے پر خبردارکیا اور اس مسئلے کی سنگینی بھی سے ڈرایا۔اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی خفیہ منصوبہ جات(جو یقیناً پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی تشخص کو تباہ کرنا تھا) کے بارے متنبہ کیا۔ ایک طرف تو تھے کہ سہمے اور دھمکے ہوئے بزدل حکمران مجبوری کی گردان کرتے نظر آئے تو دوسری طرف ،ہمارے کچھ نا سمجھ و نادان اور دینی علوم سے بے بہرہ یا سطحی علم رکھنے والے اور حالات سے بے بہرہ افراد، اس تعاون کو صرف وصرف کفر اکبر اورارتدا کی دکیٹگری میں ڈالنا شروع کر دیا۔ حالانکہ کہ کفر سے تعاون کا شرعی حکم ،کبیرہ گناہ کا بھی ہےاور کفر اکبر کا بھی ، جو کہ بہت سے اصول و ضوابط اور حالات کے صحیح علم اور تعاون کرنے والے کی کیفیت کے علم کا متقاضی ہے۔ یہیں بس نہیں ! بلکہ باقاعدہ اس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں ’’قتال‘‘ کا فتویٰ و نعرہ لگاتے نظر آئے. پاکستان کو دارالحرب قرار دے دیا اور مسلمان معاشرے کو حکمرانوں کی نا اہلی اور جہالت کی سزا دینا شروع کر دی۔ امن تباہ ہوا ،مسجدیں پامال ہوئیں, بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور لوگ جہاد جیسی عظیم عبادت سے ڈرنے اور گھبرانے لگے (حالانکہ کے کہ اگر یہ واقعی جہاد ہوتا تو جو اثر پاکستانی مسلمانوں پر ہوا، یہ پاکستانی مسلمانوں کی بجائے امریکہ و ناٹو اور مشرکین ہند پر نظر آنے چاہئیے تھے)۔
زرا سوچئے ! جو نقشہ اس وقت بن چکا ہے اور حالات دن بدن کھلتے جا رہے، ان حالات میں کفر ارتداد کے فتوے لگانا اور ملک میں دھماکے اور مسلح کاروائیوں سے اسلامیان پاکستان(دانستی و غیر دانستہ) کو خون میں نہلانا ،کہاں کا جہاد اور دینداری ہے ؟اور ان مشکل ترین حالات میں دشمن کو للکارنے کی بجائے اس کے درینہ عزائم(جو یقیناً پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرناہے) کی تکمیل کہا ں کی اسلام دوستی اور دانشمندی ہے ؟
آخر میں ایک عجیب تضاد کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ مفتیان ،دوسروں سے جس دلیری اور جرأت ِایمانی کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں خودہم اس کا عملی مظاہر ہ کرنے سے کیوں کتراتے ہیں ؟
اسلام و جہا د کے ٹھکیدار اور چیمپئن خود دار الکفرو حرب (انگلینڈ) میں کیوں پناہ ڈھونڈتے ہیں ،چھپتے کیوں ہیں ؟ایمانی غیرت و حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ کھل کر سامنے آئیں اور برطا نیہ اور یورپ میں پناہ لینے کی بجائے ان کی جڑیں کاٹنے کے لئے ان سے جنگ کریں ان کے سا یہ عاطفت سے نکل کر ان پر کاری ضرب لگائیں ۔نہ کہ اپنے ہی بھائیوں کا گلاکاٹنے کے پروانے جاری کریں ،ان کے گھروں اور مساجد کو برباد کریں ، امن کو تباہ اور اموال کو تاراج کریں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں اور انکے حکمرانوں کی فکر درست سمت میں موڑ دے ۔آمین
This article was published on True Manhaj
Disclaimer: The author of this blog claims no credit for any third-party content featured on this site unless otherwise noted. If you own rights to any of the content, and do not wish it to appear here, please contact on facebook and they will be promptly removed. The author is in no way responsible for, or has control of, the content of any external web site links. Information on this site may contain errors or inaccuracies, the author does not make warranty as to the correctness or reliability of the site's content, as it strictly represents author's personal views and doesnot intend to cause harm/offend someone.The blog is strictly for recreational purpose rather than commercial purpose.
2 comments:
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہزاروں سویلین کے مرنے پہ اگر شروع ہی میں شور مچا دیا جاتا تو اس زبوں حالی پہ ہم نہ پہنچتے مگر شور مچاتا کون کہ آج بھی پرویز مشرف ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ نائن الیون جب ہوا تو اسی زمانے میں میں نے شمسی اور شہباز ایئر بیس منہ زبانی ڈائیلاگ پر امریکیوں کو اس لئے دے دی تھیں کہ میرے ان کے صدر اور چیف آف اسٹاف سے ذاتی تعلقات تھے اس لئے کسی تحریری معاہدے کی ضرورت نہیں تھی۔
ایسا تو انگریزوں نے بھی نہیں کیا تھا کہ بس ایک ٹیلیفون کال کے اوپر جتنی مرضی ایئر بیس حاکم صاحب خود بہ خود عطا کر دیا کریں، کسی لکھت پڑھت کی ضرورت ہی نہ سمجھی جائے اور پھر ان کرتوتوں پر شرمندہ بھی نہ ہوں بلکہ فخریہ بیان کریں کہ یہ سب کچھ میری قربت کے باعث ہوا تھا۔
جو فوجی مارے گئے تو وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت پر مامورتھے ان کی شہادت افسوسناک ہے مگر وہ سویلین جو بے قصور مارے گئے اور ڈرون حملوں کے باعث مسلسل مارے جا رہے ہیں ان کی شہادت پر افسوس ہماری حکومت نے بھی نہیں کیا۔ ہاں اب جب امریکی دو گھنٹے تک مسلسل گولیاں برساتے رہے تو اگلے دن ہم نے آئی ایس پی آر کے ذریعہ شورمچایا اور ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ بلائی۔اب جبکہ تین چوتھائی سپلائز جو نیٹو فوجیوں کو درکار ہیں وہ تو سینٹرل ایشین ممالک کے ذریعہ افغانستان پہنچ رہی ہیں اس لئے پاکستان کے ذریعہ رسد روکنے سے ان کو اتنا زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ ان کو تو کسی بھی دھمکی، غصے یا انکار سے فرق نہیں پڑتا۔ آج کہہ دیا کہ دفاعی بجٹ بند کر دو ہم نے بھلا کس سے لڑائی کرنی ہے۔ ہمیں اگر دفاعی بجٹ مزید نہیں ملے گا توکیا فرق پڑے گا۔ آخر روس کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ بم تھے مگر ریاست کے ختم ہوتے ہی یہ ہیولہ بھی ختم ہو گیا۔ ہمیں بہت بڑی فوج نہیں چاہئے، ہمیں بہت زیادہ اسکول اور صحت کے مراکز چاہئیں۔
An excellent article ever read but it will not impact on the people who are ignorant. because their hearts and minds are sealed by Allah (SWT). They are the barking dogs who can not bite. May Allah protect Pakistan and Pakistan Armed Forces as He Almighty protecting since the birth of this pure land. Tundi e Baad e Mukhalif se Na ghabra ae Uqaab yeh tau Chalti hai tujhe ooncha uranay ke liye. Once again Congratulations to the Author for an eye opening material.
Post a Comment