اگر کوئی بھی شخص اسلام لانے کی بات کرتا ہے یا اسلامی نظام کہ نفاذ کی بات کرتا ہے تو یہ دنیا والو کو دیکھ کر وہ ان تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر کہ ساری عمر اسی راستے میں وقف کر دیتا ہے-
اس میں سے ایک راستہ جو کہ روشن خیال قسم کہ لوگ اپناے بیٹھے ہیں وہ الیکشن کا راستہ ہے اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تم اگر اسلام لانا چاہتے ہو اس ملک میں اسلامی قوانین دیکھنا چاہتے ہو تو پھر آؤ میدان میں لوگوں سے ووٹ مانگو اور اسمبلی میں آکر اپنا اسلام نافذ کر لو - یہ راستہ سراسر غلط ہے کیونکہ وہ معاشرہ جہاں پر ٧٠ فیصد آبادی پڑھی لکھی ہی نہیں، وہ معاشرہ جہاں پر لوگوں کو پڑھائی کہ مواقع ہی میسر نہ ہوں وہ بھلا سہی اور غلط کا انتخاب کس طرح کر سکیں گے - یاد رکھیے کہ پاکستان وہ ملک ہیں جہاں پر مسلسل پانچ سال لوٹنے والا شخص جب ایک بھوکے شخص کی ہتھیلی پر دس بیس ہزار رکھے تو فیصلہ ہوگا ہی اسکے حق میں اس لئے یہ جمہوریت کا فرسودہ نظام نہ ہی پاکستان
- کہ حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اسلام لانے کہ لئے کارساز ہے اس طریقہ نے برصغیر پاک ہند میں اسلام کہ نام پر بننے والی سب سے بڑی جماعت "جماعت اسلامی" کو نگل لیا اور وہ آج تک اسی جال میں پھنسی ہوئی ہے - نہ ہی آج تک ملک گیر الیکشن جیت سکی ہے اور نہ ہی پارلیمانی نظام میں رہتے ہوے اسلامی نظام کہ نفاذ کی کوئی خاطر خواہ خدمات کر پائی ہے -
دوسرا طریقہ اسلامی نقطہ نگاہ رکھنے والے ہر خاص عام میں بہت مقبول ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ دعوت تبلیغ کا کام شروح کر دو- لوگوں کی اصلاح کرو ، معاشرے کو اسلام کہ قبل بناؤ ، جب سب لوگ ٹھیک ہو جایں گے تو اسلام کا نفاذ خود با خود ہی عمل میں آ جانے گا - نہ ہی جان گنوانی پڑے گی اور نہ ہی اور الٹی سیدھی حرکت کرنے کی ضرورت پڑے گی - بس مساجد میں رہو، خطبہ جمعہ میں لوگوں کا جذبہ ایمانی ابھارو ، لوگوں کو پانچ وقت کی نماز کی ترغیب دو ، "قال الله و قال رسول" سے اپنی محافل کو با رونق بناؤ، دیکھو تمہارا تو کام ہے کہ لوگوں کو آگاہ کرو بس وہی کرتے جاؤ- اس طریقے پر پاکستان میں دو بڑی جماعتیں "تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی" بہت اچھے سے عمل پیرا ہیں
تیسرا طریقہ سب سے خطرناک طریقہ ہے جو کہ انتہا پسند سوچ رکھنے والے اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ لوگو کو طاقت کہ زور پر اسلام کی طرف راغب کرو، ان لوگوں کی نیت پر تو بہرحال شک نہیں کیا جا سکتا لیکن انکا طریقہ کار بے حد غلط ہے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب (رض) کا فرمان ہے "ملک کفر سے تو قائم رہ سکتا ہے لیکن جبر سے نہیں" - اب کچھ نام نہاد طالبان جو کہ اپنے آپ کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہتے ہیں ایسا طریقہ اپنے بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے پاکستان ریاست اور عوام کہ ناک میں دم کر رکھا ہے، پاکستان کہ بازار، مساجد، عبادت گاہیں، وغیرہ ان لوگوں کہ شر سے محفوظ نہیں - آے روز یہ لوگ بمب دھماکے کرتے رہتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کہ قتل عام میں ملوث ہو کر اس نبی (ص) کہ دین پھیلانے کی بات کر رہے ہیں جس پیارے نبی (ص) کو رحمت اللعلمین بنا کر بھیجا گیا
اسلام کے صحیح طور پر نفاذ کا طریقہ صرف اور صرف وہ ہے جو حضرت سیدنا محمّد ابن عبدالله (ص) نے اختیار کیا - یہ طریقہ ٦ نقاط پر مبنی ہے
. دعوت عام: اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے سب سے پہلے لوگوں کو اسلامی نظام کی طرف بلانا مقصود ہے ، جب لوگ اس طرف آجائیں تو پھر اگلے اگے پیش قدمی کی جا سکتی ہے
. تنظیم: جب لوگ آپ کی دعوت کی طرف آجایں تو پھر ایک منظم تنظیم کو وجود میں لانا لازم ہو جاتا ہے اور اس تنظیم کا امیر مقرر کرنا بھی لازمی جزو ہے -
. تربیت: جب لوگ آپکی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لیں تو پھر تنظیم کے امیر پر یہ چیز لازم ہو جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی تربیت قرآن و سنّت کے مطابق کرے
. صبر: قرآن کریم میں الله کا ارشاد ہے "بیشک الله صبر کرنے والوں کہ ساتھ ہے" تنظیم بنانے کے بعد سب سے کٹھن مرحلہ صبر ہی ہے - آپ کو اب انتظار کرنا ہے کے آپ کی تنظیم میں لوگوں کی اتنی تعداد ہو جائے کہ آپ کفر کہ نظام کے سامنے ڈٹ سکیں
. اقدام: جب آپکے پاس اتنے لوگ موجود ہو جایں کہ آپ نظام کفر کو للکار سکیںتو پھر قدم اٹھانا فرض ہو جاتا ہے
٦. تصادم: قدم اٹھانے کے بعد آپ کفر کے نظام کے ساتھ تصادم میں آ جایں گے اور انشا الله منہج نبوی (ص) پر عمل جاری رہا تو اس تصادم میں کامیابی آپکی ہی ہوگی اور اسلامی نظام نافذ ہوگا
الله اسلام کے نظام کی جدوجہد کرنے والے تمام لوگوں، آپکا اور ہمارا حامی ہو -
1 comments:
very nice :)
Post a Comment