Saturday, 28 May 2011



سیکولرز کا پیش کردہ اشکال: شریعت شریعت تو سب کرتے ہیں۔ مگر اِن داعیانِ شریعت میں سے آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ کونسی شریعت؟ کوئی ایک شریعت ہو تو بات کریں۔ یہاں خمینی کی شریعت ہے۔ نمیری کی شریعت ہے۔ ضیاءالحق کی شریعت ہے۔ قذافی کی شریعت الگ ہے۔ سعودیہ میں وہابیوں کی اور ہی شریعت ہے۔ اب طالبان ایک اور ہی شریعت لانے جا رہے ہیں۔ آپ حضرات پہلے شریعت پر متفق ہو لیں کہ شریعت کے نام پر آپ لانا کیا چاہتے ہیں!

مسلمانوں کا جواب:

رب العالمین کی شریعت پر اتنی آسانی سے دھول پھینک جانا اور اسکو کوئی ایسی مہمل چیز ثابت کر لینا ممکن نہیں۔ ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے تو اللہ کا شکر ہے کتاب اللہ پوری کی پوری محفوظ کر رکھی گئی ہے اور پچھلی چودہ صدیوں سے امت اسکو سینے سے لگائے بیٹھی ہے کہ جب بھی کسی کو رب العالمین کی شریعت دریافت کرنا ہو وہ اس کتاب کو کھولے اور اپنے سوال کا جواب پا لے بشرطیکہ ایمان ہو اور اتباع کا ارادہ ہو۔ اس پر اللہ کے فضل سے کبھی بھی دھول پڑنے والی نہیں خواہ تم جتنا مرضی زور لگا لو۔ پھر ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے ہمارے نبی کی سنت کا پورا ذخیرہ موجود ہے جس کیلئے امت کے محدثین نے چھان پھٹک کرنے میں عمریں کھپا دیں۔ پھر اس شریعت کے فہم و تفسیر کیلئے اور اس سے استدلال کے اصول وضع کرنے کیلئے اور اسکے اختلاف کو ضبط میں لانے کیلئے فقہائے امت نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ پس ہماری شریعت تو ایک نہایت معلوم چیز ہے اور جو بھی اخلاص کے ساتھ ، نہ کہ کھلواڑ کرنے کیلئے، اِس شریعت کی طرف بڑھے گا وہ ہرگز اِس شریعت کی پہچان اور تعین کرنے میں کوئی الجھن نہ پائے گا۔

البتہ تم ذرا اپنی شریعت کی بابت بتاؤ، یہ کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ تم جو روز ’جمہوریت‘ کی گردان لے کر بیٹھ جاتے ہو، کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کونسی جمہوریت؟ امریکہ کی جمہوریت؟ برطانیہ کی جمہوریت؟ فرانس کی جمہوریت (جو پیچاری مسلم خاتون کے سکارف کا بوجھ نہ سہار سکی)؟ حسنی مبارک کی جمہوریت؟ پرویز مشرف کی جمہوریت؟ چائنا کی جمہوریت؟ جیسا کیسا جمہوریت کا دعویٰ تو یہ بھی سارے ہی کرتے ہیں! یہاں تو کبھی تمہیں کسی کو الجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ بھئی کونسی جمہوریت؟

ذرا دہرے معیار دیکھتے جائیے۔ نمیری اور ضیاءالحق کے اعمال کی ذمہ داری ’شریعت‘ کو اٹھوا دی جائیگی اور انکے اعمال کو جھٹ سے ’شریعت‘ کے خلاف دلیل بنا دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ شریعت کے ہر طلبگار کو چڑا کر پوچھا جائے گا کہ ارے صاحب کونسی شریعت، ضیاءالحق والی یا نمیری والی؟ البتہ حسنی مبارک اور پرویز مشرف کے اعمال کی ذمہ داری ’جمہوریت بی‘ کو نہیں اٹھوائی جائے گی۔ ظاہر ہے جمہوریت کا ڈھونگ حسنی مبارک نے بھی رچا کر رکھا ہے اور ہر بار ’ننانوے فیصد‘ کی اکثریت سے الیکشن جیت کر دکھایا ہے۔ اب الیکشن ’جمہوریت‘ ہی کے اندر تو ہوتے ہیں! اِسی جمہوریت کا ڈھونگ پرویز مشرف نے بھی رچایا۔ الیکشن کروائے۔ اور پارلیمنٹ بٹھائی۔ لیکن ’جمہوریت‘ کیونکہ حق ہے اور ’آسمان سے اتری ہے‘، لہٰذا کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری اِس پر نہیں ڈالی جا سکتی

2 comments:

سچ ہے....، جس بات پر آدمی کا ایمان ہو، اُسکے ساتھ وہ اِسی اخلاص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جمہوریت پر تمہارا ایمان تھا، دیکھ لو، لوگوں کے سب برے کرتوتوں کے باوجود یہ کس طرح صاف کی صاف اور پاک کی پاک رہی! بلکہ اور بھی مقدس ہو گئی!!! اور اس کی حرمت کیلئے دہائی مچانا اور بھی ضروری ہو گیا! شریعتِ خداوندی تمہارے ایمان کا حصہ ہوتی، تو کسی کی بدعملی کی ایک بھی چھینٹ تم شریعت پر نہ پڑنے دیتے اور اسکی پاکی بیان کرنے میں تم کم از کم اتنا ہی زور صرف کرتے جتنا کہ جمہوریت کی پاکی بیان کرنے میں صرف کرتے ہو، بلکہ اُس سے زیادہ:

وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا ....!

جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں

اِن لوگوں کے پاس تو کوئی ایک معیار، اور انسانیت کو اکٹھا کرنے کیلئے کوئی واضح بنیاد ہے ہی نہیں۔ جس کا زور چلے وہ اپنا ایک نظریہ گھڑ لیتا ہے؛ چند عشروں کے بعد وہ نظریہ پٹخا جاتا ہے اور کسی نئے تجربے کا ڈول ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی بتائے، اِن کی قلابازیوں کا یہ عمل آج تک رکا کب ہے؟

مارکسزم ہی کو لے لیجئے، جوکہ ایک نہیں بے شمار شکلیں رکھتا ہے۔ اِس کے باوجود مارکسسٹوں کو کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ جب تک تم مارکسزم کی ایک متعین تفسیر پر متفق نہیں ہو لیتے تب تک تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ حالانکہ مارکسزم کی تحریکیں آپس میں اِس قدر متعارض رہی ہیں کہ ان میں بعد المشرقین پایا جاتا رہا ہے۔ فرانس کا ایک معروف مارکسسٹ رہ چکا مؤلف میکسم روڈنسن Maxime Rodinson لکھتا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم کوئی ایک نہیں بلکہ درجنوں سینکڑوں صورتیں رکھتا ہے۔ کارل مارکس کے ارشادات متعدد ہیں۔ یہ کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اُس کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کے نام پر کسی بھی نظریہ کو ثابت کر لیا جائے۔ سمجھو مارکس کی کتاب بھی مقدس بائبل ہی کی طرح ہے، جس کی نصوص میں سے شیطان بھی اپنی کسی گمراہی کا ثبوت پیش کرنے لگے تو کر سکتا ہے۔ (بحوالہ کتاب الاسلام والعالمانیۃ وجہا لوجہ۔ د۔ یوسف القرضاوی۔ 185)

میکسم روڈنسن کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو:

کوئی شک نہیں کہ اشتراکی دعوتیں کئی ساری ہیں۔ چنانچہ بابن کی اشتراکت بروڈن کی اشتراکیت کی نسبت ایک بے حد مختلف چیز ہے۔ پھر سیمن اور بروڈن دونوں کی اشتراکیت پلانکی کی اشتراکیت سے مختلف ہے۔ اور یہ سب اشتراکیتیں لویس پلان، کابیہ، فوربیہ اور بیکر کے اشتراکی افکار سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر تم ہر اشتراکی فرقے کے ہاں دوسرے کے خلاف شدید جذبات اور دھڑے بازی بھی دیکھو گے۔ (سابقہ حوالہ صفحہ۔ 184)

یہ سیکولرسٹ جن کے اپنے ہزاروں مذاہب ہیں، اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، اور خود اِن کو پتہ ہے کہ یہ کسی ٹھوس بنیاد پر کھڑے نہیں ہوئے.... آپ خوب واقف ہیں کمیونسٹوں نے جمہوریت پرستوں کے کیسے کیسے پرخچے اڑائے ہیں، اور جمہوریت پرستوں نے کمیونسٹوں کے کیسے کیسے لتے لئے ہیں، جبکہ یہ دونوں گروہ (یعنی کمیونسٹ اور جمہوریت پرست) انسان پرستی کے ٹھیکیدار رہے ہیں۔ ان میں ہر ایک گویا خلق خدا کے درد میں صبح شام لوٹتا رہا ہے.... یہ سب سرگرداں ظالم آج شریعتِ محمدی کو یہ طعنہ دینے چلے ہیں کہ یہ کسی واضح چیز پر کھڑی ہوئی نہیں ہے! دوہرے پیمانے اِس کے سوا اور کیا ہوتے ہیں:

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (المطففین: 5- 1)

تباہی ہے ڈنڈی ماروں کیلئے۔ جنکا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے ناپ یا تول لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب انکو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔ کیا نہیں سمجھتے یہ لوگ کہ یہ اٹھائے جانیوالے ہیں۔ ایک بڑے دن کو؟

رہ گیا شریعت کا نام استعمال کرنے میں کسی حکمران شخص یا ٹولے کا ایک غلطی یا زیادتی کا مرتکب ہونا....، تو جہاں بھی کسی نظریے یا نظام کا استحصال ہوا ہو، عقلاءکے ہاں اِسکی ذمہ داری اُس شخص یا اشخاص پر ڈالی جاتی ہے نہ کہ اُس نظریے یا نظام پر۔ یہ ایک معروف بات ہے اور شریعت کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہاں اُس شخص کی وہ غلطی جو لغزش کے زمرے میں آتی ہو اور بدنیتی کے ساتھ سرزد نہ ہوئی ہو، اُسکا ذمہ دار وہ شخص خود ہوتا ہے، تاہم اس پر اُس کیلئے بخشش و درگزر کی امید رکھی جاتی ہے۔ جبکہ وہ زیادتی جس کا محرک اُس شخص کی اپنی ہوسِ اقتدار اور اُسکے اپنے سیاسی مفادات ہوں، تو وہ اُسکے ذاتی جرائم میں شمار ہوگی، جس پر وہ دنیا میں بھی جوابدہ ہے اور آخرت میں بھی۔

Post a Comment